چلے آتے تھے چاروں اور سے پتھر جہاں میں تھا
تجلی جلوہ اس رشک قمر کا قرب تھا مجھ کو
جلے جاتے تھے واں جائے ملک کے پر جہاں میں تھا
گلی میں اس کی میری رات کیا آرام سے گذری
یہی تھا سنگ بالیں خاک تھی بستر جہاں میں تھا
غضب کچھ شور تھا سر میں بلا بے طاقتی جی میں
قیامت لحظہ لحظہ تھی مرے دل پر جہاں میں تھا
چبھیں تھیں جی میں وے پلکیں لگیں تھیں دل کو وے بھوویں
یہی شمشیر چلتی تھی یہی خنجر جہاں میں تھا
خیال چشم و روئے یار کا بھی طرفہ عالم ہے
نظر آیا ہے واں اک عالم دیگر جہاں میں تھا
عجب دن میرؔ تھے دیوانگی میں دشت گردی کے
سر اوپر سایہ گستر ہوتے تھے کیکر جہاں میں تھا