جنگل میں چشم کس سے بستی کی رہبری کی

جنگل میں چشم کس سے بستی کی رہبری کی
صاحب ہی نے ہمارے یہ بندہ پروری کی
شب سن کے شور میرا کچھ کی نہ بے دماغی
اس کی گلی کے سگ نے کیا آدمی گری کی
کرتے نہیں ہیں دل خوں اس رنگ سے کسو کا
ہم دل شدوں کی ان نے کیا خوب دلبری کی
اللہ رے کیا نمک ہے آدم کے حسن میں بھی
اچھی لگی نہ ہم کو خوش صورتی پری کی
ہے اپنی مہر ورزی جانکاہ و دل گدازاں
اس رنج میں نہیں ہے امید بہتری کی
رفتار ناز کا ہے پامال ایک عالم
اس خود نما نے کیسی خودرائی خودسری کی
اے کاش اب نہ چھوڑے صیاد قیدیوں کو
جی ہی سے مارتی ہے آزادی بے پری کی
اس رشک مہ سے ہر شب ہے غیر سے لڑائی
بخت سیہ نے بارے ان روزوں یاوری کی
کھٹ پچریاں ہی کی ہیں صراف کے نے ہم سے
پیسے دے بیروئی کی پھر لے گئے کھری کی
گذرے بسان صرصر عالم سے بے تامل
افسوس میرؔ تم نے کیا سیر سرسری کی
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *