نہ چوب گل نے دم مارا نہ چھڑیاں بید کی ہلیاں
گریباں شور محشر کا اڑایا دھجیاں کر کر
فغاں پر ناز کرتا ہوں کہ بل بے تیری ہتھ بلیاں
تفاوت کچھ نہیں شیرین و شکر اور یوسف میں
سبھی معشوق اگر پوچھے کوئی مصری کی ہیں ڈلیاں
ترے غمزے نے جو رو ظلم سے آنکھیں غزالوں کی
بیاباں میں دکھا مجنوں کو پاؤں کے تلے ملیاں
چمن کو آج مارا ہے یہاں تک رشک گل رو نے
کہ بلبل سر پٹکتی ہے نہیں منھ کھولتیں کلیاں
مری آہ سحر کی برچھیاں سختی کی تڑپوں پر
نگاہیں کر کے گر پڑتی ہیں بجلی کی بھی اچپلیاں
صنم کی زلف میں کوچہ ہے سربستہ ہر اک مو پر
نہ دیکھی ہوں گی تو نے خضر یہ ظلمات میں گلیاں
دوانہ ہو گیا تو میرؔ آخر ریختے کہہ کہہ
نہ کہتا تھا میں اے ظالم کہ یہ باتیں نہیں بھلیاں