یہیں آگے بہاریں ہو گئی ہیں
جنوں میں خشک ہو رگ ہائے گردن
گریباں کی سی تاریں ہو گئی ہیں
سنا جاتا ہے شہر عشق کے گرد
مزاریں ہی مزاریں ہو گئی ہیں
اسی دریائے خوبی کا ہے یہ شوق
کہ موجیں سب کناریں ہو گئی ہیں
انھیں گلیوں میں جب روتے تھے ہم میرؔ
کئی دریا کی دھاریں ہو گئی ہیں