دیدۂ تر ابر سا چھایا ہے اب
ٹیڑھے بانکے سیدھے سب ہو جائیں گے
اس کے بالوں نے بھی بل کھایا ہے اب
ہوں بخود تو کوئی پہنچے مجھ تلک
بے خودی نے دور پہنچایا ہے اب
کاش کے ہو جائے سینہ چاک چاک
رکتے رکتے جی بھی گھبرایا ہے اب
راہ پر وہ کیونکے آوے مست ناز
دشمنوں نے اس کو بہکایا ہے اب
کیا جئیں گے داغ ہو کر خوں ہوا
زندگی کا دل جو سرمایہ ہے اب
میرؔ شاید کعبے ہی میں رہ پڑے
دیر سے تو یاں خدا لایا ہے اب