برسے ہے عشق اپنے دیوار اور در سے
جمہور راہ اس کی دیکھا کرے ہے اکثر
محفوظ رکھ الٰہی اس کو نظر گذر سے
وحش اور طیر آنکھیں ہر سو لگا رہے ہیں
گرد رہ اس کی دیکھیں اٹھ چلتی ہے کدھر سے
شاید کہ وصل اس کا ہووے تو جی بھی ٹھہرے
ہوتی نہیں ہے اب تو تسکین دل خبر سے
مدت سے چشم بستہ بیٹھا رہا ہوں لیکن
وہ روئے خوب ہرگز جاتا نہیں نظر سے
گو ہاتھ وہ نہ آوے دل غم سے خون کرنا
ہے لاگ میرے جی کو اس شوخ کی کمر سے
یہ گل نیا کھلا ہے لے بال تو قفس میں
کوئی کلی نہ نکلے مرغ چمن کے پر سے
دیکھو نہ چشم کم سے یہ آنکھ ڈبڈبائی
سیراب ابر ہوتے دیکھے ہیں چشم تر سے
گلشن سے لے قفس تک آواز ایک سی ہے
کیا طائر گلستاں ہیں نالہ کش اثر سے
ہر اک خراش ناخن جبہے سے صدر تک ہے
رجھواڑ ہو تو پوچھے کوئی ہمیں ہنر سے
یہ عاشقی ہے کیسی ایسے جیو گے کب تک
ترک وفا کرو ہو مرنے کے میرؔ ڈر سے