گل پھول دیکھنے کو بھی ٹک اٹھ چلا کرو
جوں نے نہ زار نالی سے ہم ایک دم رہیں
تم بند بند کیوں نہ ہمارا جدا کرو
سوتے کے سوتے یوں ہی نہ رہ جائیں ہم کبھو
آنکھیں ادھر سے موند نہ اپنی لیا کرو
سودے میں اس کے بک گئے ایسے کئی ہزار
یوسفؑ کا شور دور ہی سے تم سنا کرو
ہوتے ہو بے دماغ تو دیکھو ہو ٹک ادھر
غصے ہی ہم پہ کاش کے اکثر رہا کرو
یہ اضطراب دیکھ کہ اب دشمنوں سے بھی
کہتا ہوں اس کے ملنے کی کچھ تم دعا کرو
دم رکتے ہیں سیاہی مژگاں ہی دیکھ کر
سرمہ لگا کے اور ہمیں مت خفا کرو
پورا کریں ہیں وعدے کو اپنے ہم آج کل
وعدے کے تیں وصال کے تم بھی وفا کرو
دشمن ہیں اپنے جی کے تمھارے لیے ہوئے
تم بھی حقوق دوستی کے کچھ ادا کرو
اپنا چلے تو آپھی ستم سب اٹھائیے
تم کون چاہتا ہے کسو پر جفا کرو
ہر چند ساتھ جان کے ہے عشق میرؔ لیک
اس درد لاعلاج کی کچھ تو دوا کرو