جی چاہے مل کسو سے یا سب سے تو جدا رہ

جی چاہے مل کسو سے یا سب سے تو جدا رہ
پر ہوسکے تو پیارے ٹک دل کا آشنا رہ
کل بے تکلفی میں لطف اس بدن کا دیکھا
نکلا نہ کر قبا سے اے گل بس اب ڈھپا رہ
عاشق غیور جی دے اور اس طرف نہ دیکھے
وہ آنکھ جو چھپاوے تو تو بھی ٹک کھنچا رہ
پہنچیں گے آگے دیکھیں کس درجہ کو ابھی تو
اس ماہ چار دہ کا سن دس ہے یا کہ بارہ
کھینچا کرے ہے ہر دم کیا تیغ بوالہوس پر
اس ناسزائے خوں کے اتنا نہ سر چڑھا رہ
مستظہر محبت تھا کوہکن وگرنہ
یہ بوجھ کس سے اٹھتا ایک اور ایک گیارہ
ہر مشت خاک یاں کی چاہے ہے اک تامل
بن سوچے راہ مت چل ہر گام پر کھڑا رہ
شاید کہ سربلندی ہووے نصیب تیرے
جوں گرد راہ سب کے پاؤں سے تو لگا رہ
اس خط سبز نے کچھ رویت نہ رکھی تیری
کیا ایسی زندگانی جا خضر زہر کھا رہ
حد سے زیادہ واعظ یہ کودنا اچھلنا
کاہے کو جاتے ہیں ہم اے خرس اب بندھا رہ
میں تو ہیں وہم دونوں کیا ہے خیال تجھ کو
جھاڑ آستین مجھ سے ہاتھ آپ سے اٹھا رہ
جیسے خیال مفلس جاتا ہے سو جگہ تو
مجھ بے نوا کے بھی گھر ایک آدھ رات آ رہ
دوڑے بہت ولیکن مطلب کو کون پہنچا
آئندہ تو بھی ہم سا ہو کر شکستہ پا رہ
جب ہوش میں تو آیا اودھر ہی جاتے پایا
اس سے تو میرؔ چندے اس کوچے ہی میں جا رہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *