ہوکے فقیر گلی میں کسو کی رنج اٹھاؤ جا بیٹھو
کیا دیکھو ہو آگا پیچھا عشق اگر فی الواقع ہے
ایک دم اس بے چشم و رو کی تیغ تلے بھی جا بیٹھو
ایک سماں تھا وصل کا اس کے سیج پہ سوئے پھولوں کی
اب ہے زمان فراق بچھونے خار و خسک کے بچھا بیٹھو
کام کی صورت اپنے پیارے کیا بگڑی ہے کیا کہیے
آؤ کبھو مدت میں یاں تو اچھے منھ کو بنا بیٹھو
ٹیڑھی چال سے اس کی خائف چپکے کھڑے کیا پھرتے ہو
سیدھی سیدھی دوچار اس کو جرأت کر کے سنا بیٹھو
ٹیڑھی بھویں دشمن پہ کرو ہو عشق و ہوس میں تمیز کرو
یعنی تیغ ستم ایک اس کو چلتے پھرتے لگا بیٹھو
نکلا خط پشت لب اس کا خضر و مسیحا مرنے لگے
سوچتے کیا ہو میرؔ عبث اب زہر منگا کر کھا بیٹھو