کاش اجل بے وقت ہی پہنچے ایک طرف مر جاویں ہم
اس کی نگہ کی اچپلیوں سے غش کرتے ہیں جگر داراں
کیا ٹھہرے گا دل اپنا جو بجلی سے ڈر جاویں ہم
صبر و قرار جو ٹک ہووے تو بہتر ہیں بے طاقت بھی
ہاتھ رکھے دل ہی پر کب تک اودھر اکثر جاویں ہم
خاک برابر عاشق ہیں اس کوچے میں ناچاری سے
گھر ہوں خانہ خرابوں کے تو اپنے بھی گھر جاویں ہم
میرؔ اپنی سب عمر گئی ہے سب کی برائی ہی کرتے
سر پر آیا جانے کا موسم اب تو بھلا کر جاویں ہم