اس پردے کے اٹھ جانے سے اس کو ہم سے حجاب ہوا
ساری ساری راتیں جاگے عجز و نیاز و زاری کی
تب جا کر ملنے کا اس کے صبح کے ہوتے جواب ہوا
کیا کہیے مہتاب میں شب کی وہ بھی ٹک آ بیٹھا تھا
تاب رخ اس مہ نے دیکھی سو درجے بیتاب ہوا
شمع جو آگے شام کو آئی رشک سے جل کر خاک ہوئی
صبح گل تر سامنے ہو کر جوش شرم سے آب ہوا
مرتے نہ تھے ہم عشق کے رفتہ بے کفنی سے یعنی میرؔ
دیر میسر اس عالم میں مرنے کا اسباب ہوا