دل کو میرے ہے اضطراب بہت
دیکھیے رفتہ رفتہ کیا ہووے
تاب دل کم ہے پیچ و تاب بہت
دیر افسوس کرتے رہیے گا
عمر جاتی رہی شتاب بہت
مہر و لطف و کرم عنایت کم
ناز و خشم و جفا عتاب بہت
بے تفاوت ہے فرق آپس میں
وے مقدس ہیں میں خراب بہت
پشت پا پر ہے چشم شوخ اس کی
ہائے رے ہم سے ہے حجاب بہت
دختر رز سے رہتے ہیں محشور
شیخ صاحب ہیں کُس کباب بہت
آویں محشر میں کیوں نہ پائے حساب
ہم یہی کرتے ہیں حساب بہت
واں تک اپنی دعا پہنچتی نہیں
عالی رتبہ ہے وہ جناب بہت
گل کے دیکھے کا غش گیا ہی نہ میرؔ
منھ پہ چھڑکا مرے گلاب بہت