چرخ پر اپنا مدار دیکھیے کب تک رہے

چرخ پر اپنا مدار دیکھیے کب تک رہے
ایسی طرح روزگار دیکھیے کب تک رہے
سہرے کہاں تک پڑیں آنسوؤں کے چہرے پر
گریہ گلے ہی کا ہار دیکھیے کب تک رہے
ضعف سے آنکھیں مندیں کھل نہ گئیں پھر شتاب
غش یہ ہمیں اب کی بار دیکھیے کب تک رہے
لب پہ مرے آن کر بارہا پھر پھر گئی
جان کو یہ اضطرار دیکھیے کب تک رہے
اس سے تو عہد و قرار کچھ بھی نہیں درمیاں
دل ہے مرا بے قرار دیکھیے کب تک رہے
اس سرے سے اس سرے داغ ہی ہیں صدر میں
ان بھی گلوں کی بہار دیکھیے کب تک رہے
آنکھیں تو پتھرا گئیں تکتے ہوئے اس کی راہ
شام و سحر انتظار دیکھیے کب تک رہے
آنکھ ملاتا نہیں ان دنوں وہ شوخ ٹک
بے مزہ ہے ہم سے یار دیکھیے کب تک رہے
روئے سخن سب کا ہے میری غزل کی طرف
شعر ہی میرا شعار دیکھیے کب تک رہے
گیسو و رخسار یار آنکھوں ہی میں پھرتے ہیں
میرؔ یہ لیل و نہار دیکھیے کب تک رہے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *