چلتے ہوئے تسلی کو کچھ یار کہہ گئے

چلتے ہوئے تسلی کو کچھ یار کہہ گئے
اس قافلے میں ہم بھی تھے افسوس رہ گئے
کیا کیا مکان شاہ نشیں تھے وزیر کے
وہ اٹھ گیا تو یہ بھی گرے بیٹھے ڈھہ گئے
اس کج روش سے ملنا خرابات میں نہ تھا
بے طور ہم بھی جا کے ملے بے جگہ گئے
وے زور ور جواں جنھیں کہیے پہاڑ تھے
جب آئی موج حادثہ تنکے سے بہ گئے
وہ یار تو نہ تھا تہ دل سے کسو کا میرؔ
ناچار اس کے جور و ستم ہم بھی سہ گئے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *