چمکی ہے جب سے برق سحر گلستاں کی اور

چمکی ہے جب سے برق سحر گلستاں کی اور
جی لگ رہا ہے خار و خس آشیاں کی اور
وہ کیا یہ دل لگے ہے فنا میں کہ رفتگاں
منھ کر کے بھی نہ سوئے کبھو پھر جہاں کی اور
رنگ سخن تو دیکھ کہ حیرت سے باغ میں
رہ جاتے ہیں گے دیکھ کے گل اس دہاں کی اور
آنکھیں سی کھل ہی جائیں گی جو مر گیا کوئی
دیکھا نہ کر غضب سے کسو خستہ جاں کی اور
کیا بے خبر ہے رفتن رنگین عمر سے
جوئے چمن میں دیکھ ٹک آب رواں کی اور
یاں تاب سعی کس کو مگر جذب عشق کا
لاوے اسی کو کھینچ کسو ناتواں کی اور
یارب ہے کیا مزہ سخن تلخ یار میں
رہتے ہیں کان سب کے اسی بد زباں کی اور
یا دل وہ دیدنی تھی جگہ یا کہ تجھ بغیر
اب دیکھتا نہیں ہے کوئی اس مکاں کی اور
آیا کسے تکدر خاطر ہے زیر خاک
جاتا ہے اکثر اب تو غبار آسماں کی اور
کیا حال ہو گیا ہے ترے غم میں میرؔ کا
دیکھا گیا نہ ہم سے تو ٹک اس جواں کی اور
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *