چھوڑا جنوں کے دور میں رسم و رہ اسلام کو

چھوڑا جنوں کے دور میں رسم و رہ اسلام کو
تہ کر صنم خانے چلا ہوں جامۂ احرام کو
مرتا مرو جیتا جیو آؤ کوئی جاؤ کوئی
ہے کام ہم لوگوں سے کیا اس دلبر خود کام کو
جس خود نما تک جاؤں ہوں اس سے سنوں ہوں دور دور
کیا منھ لگاوے اب کوئی اس رو سیہ بدنام کو
بے چین بستر پر رہا بے خواب خاکستر پہ ہوں
صبر و سکوں جب سے گئے پایا نہیں آرام کو
آسائش و راحت سے جو پوچھے کوئی تو کیا کہوں
میں عمر بھر کھینچا کیا رنج و غم و آلام کو
میرؔ اب بھلا کیا ابتدائے عشق کو روتا ہے تو
کر فکر جو پاوے بھی اس آغاز کے انجام کو
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *