حال برا ہے تم کو ہم سے اتنی غفلت کیا ہے آج

حال برا ہے تم کو ہم سے اتنی غفلت کیا ہے آج
کوئی گھڑی تو پاس رہو یاں پہروں فرصت کیا ہے آج
سامنے ہے وہ آئینہ پر آنکھ نہیں کھل سکتی ہے
دل تنگی سے رکے ہے دم کیا کہیے صورت کیا ہے آج
فرق و تیغ جٹے رہتے ہیں جب سے دل کی لاگ لگی
اس ظالم بے رحم کی میری ایسی صحبت کیا ہے آج
شیشہ صراحی ساغر و مینا سب کل تک بھی حاضر تھے
کوئے بادہ فروشاں میں یہ میری حرمت کیا ہے آج
میرؔ کھڑے اک ساعت ہی میں غش تم کرنے لگتے ہو
تاب نہیں کیا ضعف ہے دل میں جی بے طاقت کیا ہے آج
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *