حال زخم جگر سے ہے درہم

حال زخم جگر سے ہے درہم
کاش رہتے کسو طرف مر ہم
دلبروں کو جو بر میں کھینچا ٹک
اس ادا سے بہت ہوئے برہم
آپ کو اب کہیں نہیں پاتے
بے خودی سے گئے ہیں کیدھر ہم
دیر و کعبہ گئے ہیں ہم اکثر
یعنی ڈھونڈا ہے اس کو گھر گھر ہم
کہہ سکے کون ہم کو ناہموار
اب تو ہیں خاک سے برابر ہم
کوفت سی کوفت اپنے دل پر ہے
چھاتی کوٹا کیے ہیں اکثر ہم
ابر کرتا ہے اب کمی سی میرؔ
دیکھیں ہیں سوئے دیدۂ تر ہم
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *