حال کہنے کی کسے تاب اس آزار کے بیچ

حال کہنے کی کسے تاب اس آزار کے بیچ
حال رہتا ہی نہیں عشق کے بیمار کے بیچ
آرزومند ہے خورشید میسر ہے کہاں
کہ تنک ٹھہرے ترے سایۂ دیوار کے بیچ
کیا کہیں ہم کہ گلے ڈالے پھریں مستی میں
دانے سبحہ کے پرو رشتۂ زنار کے بیچ
رشک خوبی کا اسی کے جگر مہ میں ہے داغ
یہ جو اک خال پڑا ہے ترے رخسار کے بیچ
مل گیا پھولوں میں اس رنگ سے کرتے ہوئے سیر
کہ تامل کیے پایا اسے گلزار کے بیچ
قدر گو تم نہ کرو میری متاع دل کی
جنس لگ جاوے گی یہ بھی کسو سرکار کے بیچ
گرد سررفتہ ہیں اے میرؔ ہم اس کشتے کے
رہ گیا یار کی جو ایک ہی تلوار کے بیچ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *