آتی نہیں ہے تو بھی شکایت زباں تلک
اس رشک مہ کے دل میں نہ مطلق کیا اثر
ہرچند پہنچی میری دعا آسماں تلک
جو آرزو کی اس سے سو دل میں ہی خوں ہوئی
نومید یوں بسر کرے کوئی کہاں تلک
کھینچا کیے وہ دور بہت آپ کو سدا
ہمسائے ہم موا کیے آئے نہ یاں تلک
بلبل قفس میں اس لب و لہجہ پہ یہ فغاں
آواز ایک ہو رہی ہے گلستاں تلک
پچھتائے اٹھ کے گھر سے کہ جوں نو دمیدہ پر
جانا بنا نہ آپ کو پھر آشیاں تلک
ہم صحبتی یار کو ہے اعتبار شرط
اپنی پہنچ تو میرؔ نہیں پاسباں تلک