ہمیشہ آگ ہی برسے ہے یاں ہوا ہے گرم
ہزار حیف کہ درگیر صحبت اس سے نہیں
جگر کی آگ نے ہنگامہ کر رکھا ہے گرم
کہاں ہے تیغ و سپر آفتاب کی بارے
وہ سرد مہر ہمارا بھی اب ہوا ہے گرم
نہ اتنی دارو پی ظالم کہ اس خمار میں ہوں
مزاج گرم ہے پھر اور یہ دوا ہے گرم
گیا جہان سے خورشید ساں اگرچہ میرؔ
ولیک مجلس دنیا میں اس کی جا ہے گرم