کہ زندگی تو کروں جب تلک کہ یار آوے
کمانیں اس کی بھووں کی چڑھی ہی رہتی ہیں
نہ جب تلک سرتیرستم شکار آوے
ہمیں تو ایک گھڑی گل بغیر دوبھر ہے
خدا ہی جانے کہ اب کب تلک بہار آوے
اٹھی بھی گرد رہ اس کی کہیں تو لطف ہے کیا
جب انتظار میں آنکھوں ہی پر غبار آوے
ہر ایک شے کا ہے موسم نہ جانے تھا منصور
کہ نخل دار میں حلق بریدہ بار آوے
تمھارے جوروں سے اب حال جائے عبرت ہے
کسو سے کہیے تو اس کو نہ اعتبار آوے
نہیں ہے چاہ بھلی اتنی بھی دعا کر میرؔ
کہ اب جو دیکھوں اسے میں بہت نہ پیار آوے