خبر نہ تھی تجھے کیا میرے دل کی طاقت کی

خبر نہ تھی تجھے کیا میرے دل کی طاقت کی
نگاہ چشم ادھر تو نے کی قیامت کی
انھوں میں جو کہ ترے محو سجدہ رہتے ہیں
نہیں ہے قدر ہزاروں برس کی طاعت کی
اٹھائی ننگ سمجھ تم نے بات کے کہتے
وفا و مہر جو تھی رسم ایک مدت کی
رکھیں امید رہائی اسیر کاکل و زلف
مری تو باتیں ہیں زنجیر صرف الفت کی
رہے ہے کوئی خرابات چھوڑ مسجد میں
ہوا منائی اگر شیخ نے کرامت کی
سوال میں نے جو انجام زندگی سے کیا
قد خمیدہ نے سوے زمیں اشارت کی
نہ میری قدر کی اس سنگ دل نے میرؔ کبھو
ہزار حیف کہ پتھر سے میں محبت کی
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *