سب لوگوں میں ہیں لاگیں یاں محض فقیری ہے
کیا دھیر بندھے اس کی جو عشق کا رسوا ہو
نکلے تو کہیں لڑکے دھیری ہے بے دھیری ہے
خوں عشق کی گرمی سے سوکھا جگر و دل میں
اک بوند تھی لوہو کی اب چھاتی جو چیری ہے
ہم طائر نوپر ہیں وے جن کو بہاراں میں
گل گشت گلستاں کا ہے شوق و اسیری ہے
اس دلبر بد ظن سے خوش گذرے ہے عاشق کی
نے رحم ہے خاطر میں نے عذر پذیری ہے
ہم مرثیہ دل ہی کا اکثر کہا کرتے ہیں
اب کریے تخلص تو شائستہ ضمیریؔ ہے
کیا اہل دول سے ہے اے میرؔ مجھے نسبت
یاں عجز و فقیری ہے واں ناز امیری ہے