اب جو اک حسرت جوانی ہے

اب جو اک حسرت جوانی ہے
عمر رفتہ کی یہ نشانی ہے
رشک یوسف ہے آہ وقت عزیز
عمر اک بار کاروانی ہے
گریہ ہر وقت کا نہیں بے ہیچ
دل میں کوئی غم نہانی ہے
ہم قفس زاد قیدی ہیں ورنہ
تا چمن ایک پر فشانی ہے
اس کی شمشیر تیز سے ہمدم
مر رہیں گے جو زندگانی ہے
غم و رنج و الم نکویاں سے
سب تمھاری ہی مہربانی ہے
خاک تھی موجزن جہاں میں اور
ہم کو دھوکا یہ تھا کہ پانی ہے
یاں ہوئے میرؔ تم برابر خاک
واں وہی ناز و سرگرانی ہے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *