اب دل کو آہ کرنی ہی صبح و مسا لگی

اب دل کو آہ کرنی ہی صبح و مسا لگی
پژمردہ اس کلی کے تئیں بھی ہوا لگی
کیونکر بجھاؤں آتش سوزان عشق کو
اب تو یہ آگ دل سے جگر کو بھی جا لگی
دل کو گئے ہی یاں سے بنے اب کہ ہر سحر
کوچے میں تیری زلف کے آنے صبا لگی
زلف سیاہ یار کی رہتی ہے چت چڑھی
یہ تازہ میرے جی کو کہاں کی بلا لگی
بیتابی و شکیب و سفر حاصل کلام
اس دل مریض غم کو نہ کوئی دوا لگی
ڈر مجھ نفس سے غیر کہ پھر جی ہی سے گیا
جس کو کسو ستم زدہ کی بد دعا لگی
لگ جائے چپ نہ تجھ کو تو تو کہیو عندلیب
گر بے کلی نے کی ہمیں تکلیف نالگی
تھا صید ناتواں میں ولے میرے خون سے
پاؤں میں صید بندوں کے بھر کر حنا لگی
کشتے کا اس کے زخم نہ ظاہر ہوا کہ میرؔ
کس جائے اس شہید کے تیغ جفا لگی
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *