شاید اس کے بھی دل میں جا کریے
اب سلگنے لگی ہے چھاتی بھی
یعنی مدت پڑے جلا کریے
چشم و دل جان مائل خوباں
بدی یاروں کی کیا کیا کریے
دیکھیں کب تک رہے ہے یہ صحبت
گالیاں کھائیے دعا کریے
کچھ کہیں تو کہے ہے یہ نہ کہو
کیونکر اظہار مدعا کریے
اتفاق ان کا مارے ڈالے ہے
ناز و انداز کو جدا کریے
عید ہی کاشکے رہے ہر روز
صبح اس کے گلے لگا کریے
راہ تکنے کو بھی نہایت ہے
منتظر کب تلک رہا کریے
ہستی موہوم و یک سرو گردن
سینکڑوں کیونکے حق ادا کریے
وہ نہیں سرگذشت سنتا میرؔ
یوں کہانی سی کیا کہا کریے
مترتب ہو نفع جو کچھ بھی
دل کی بیماری کی دوا کریے
سو تو ہر روز ہے بتر احوال
متحیر ہیں آہ کیا کریے