اس ریختے کو ورنہ ہم خوب کر چکے ہیں
مرنے سے تم ہمارے خاطر نچنت رکھیو
اس کام کا بھی ہم کچھ اسلوب کر چکے ہیں
حسن کلام کھینچے کیونکر نہ دامن دل
اس کام کو ہم آخر محبوب کر چکے ہیں
ہنگامۂ قیامت تازہ نہیں جو ہو گا
ہم اس طرح کے کتنے آشوب کر چکے ہیں
رنگ پریدہ قاصد بادسحر کبوتر
کس کس کے ہم حوالے مکتوب کر چکے ہیں
تنکا نہیں رہا ہے کیا اب نثار کریے
آگے ہی ہم تو گھر کو جاروب کر چکے ہیں
ہر لحظہ ہے تزاید رنج و غم و الم کا
غالب کہ طبع دل کو مغلوب کر چکے ہیں
کیا جانیے کہ کیا ہے اے میرؔ وجہ ضد کی
سو بار ہم تو اس کو محجوب کر چکے ہیں