پھر اس پہ ظلم یہ ہے کچھ کہا نہیں جاتا
ہوئی ہے اتنی ترے عکس زلف کی حیراں
کہ موج بحر سے مطلق بہا نہیں جاتا
نہیں گذرتی گھڑی کوئی مجھ خراب پر آہ
کہ جس میں غم سے ترے جی ڈھہا نہیں جاتا
ستم کچھ آج گلی میں تری نہیں مجھ پر
کب آ کے خون میں میں یاں نہا نہیں جاتا
خراب مجھ کو کیا اضطراب دل نے میرؔ
کہ ٹک بھی اس کنے اس بن رہا نہیں جاتا