ایسے ناداں دلربا کے ملنے کا حاصل ہے کیا
جاننا باطل کسو کو یہ قصور فہم ہے
حق اگر سمجھے تو سب کچھ حق ہے یاں باطل ہے کیا
یاں کوئی دن رات وقفہ کر کے قصد آگے کا کر
کارواں گاہ جہان رفتنی منزل ہے کیا
تک رہے ہیں اس کو سو ہم تک رہے ہیں ایک سے
دیدۂ حیراں ہمارا دیدۂ بسمل ہے کیا
وہ حقیقت ایک ہی ساری نہیں ہے سب میں تو
آب سا ہر رنگ میں یہ اور کچھ شامل ہے کیا
چوٹ میرے دل میں ایسی ہے کہ ہوں میں دم بخود
وہ کشندہ یوں ہی کہتا ہے کہ تو گھائل ہے کیا
کہتے ہیں ظاہر ہے اک ہی لیلی ہفت اقلیم میں
اس عبارت کا نہیں معلوم کچھ محمل ہے کیا
ہم تو سو سو بار مر رہتے ہیں ایک ایک آن میں
عشق میں اس کے گذرنا جان سے مشکل ہے کیا
شاخ پر گل یا نہال اودھر جھکے جاتے ہیں سب
قامت دلکش کا اس کی سرو ہی مائل ہے کیا
مرثیہ میرے بھی دل کا رقت آور ہے بلا
محتشمؔ کو میرؔ میں کیا جانوں اور مقبلؔ ہے کیا