ہر دم بھری رہے ہے لوہو سے چشم تر سب
حیف اس سے حال میرا کہتا نہیں ہے کوئی
نالوں سے شب کے میرے رکھتے تو ہیں خبر سب
بجلی سی اک تجلی آئی تھی آسماں سے
آنکھیں لگا رہے ہیں اہل نظر ادھر سب
اس ماہ بن تو اپنی دکھ میں بسر ہوئی تھی
کل رات آ گیا تو وہ دکھ گیا بسر سب
کیا فہم کیا فراست ذوق و بصر سماعت
تاب و توان و طاقت یہ کر گئے سفر سب
منزل کو مرگ کی تھا آخر مجھے پہنچنا
بھیجا ہے میں نے اپنا اسباب پیشتر سب
دنیا میں حسن و خوبی میرؔ اک عجیب شے ہے
رندان و پارسا یاں جس پر رکھیں نظر سب