بیمار مرا گراں بہت ہے
ہر آن شکیب میں کمی ہے
بیتابی زماں زماں بہت ہے
مقصود کو دیکھیں پہنچے کب تک
گردش میں تو آسماں بہت ہے
جی کو نہیں لاگ لامکاں سے
ہم کو کوئی دل مکاں بہت ہے
گو خاک سے گور ہووے یکساں
گم گشتے کا یہ نشاں بہت ہے
جاں بخشی غیر ہی کیا کر
مجھ کو یہی نیم جاں بہت ہے
اکثر پوچھے ہے جیتے ہیں میرؔ
اب تو کچھ مہرباں بہت ہے