دل دل لوگ کہا کرتے ہیں تم نے جانا کیا ہے دل

دل دل لوگ کہا کرتے ہیں تم نے جانا کیا ہے دل
چشم بصیرت وا ہووے تو عجائب دید کی جا ہے دل
اوج و موج کا آشوب اس کے لے کے زمیں سے فلک تک ہے
صورت میں تو قطرۂ خوں ہے معنی میں دریا ہے دل
جیسے صحرا کو کشادہ دامن ہم تم سنتے آتے ہیں
بند کر آنکھیں ٹک دیکھو تو ویسا ہی صحرا ہے دل
کوہکن و مجنوں وامق تم جس سے پوچھو بتا دیوے
عشق و جنوں کے شہروں میں ہر چار طرف رسوا ہے دل
ہائے غیوری دل کی اپنے داغ کیا ہے خود سر نے
جی ہی جس کے لیے جاتا ہے اس سے بے پروا ہے دل
مت پوچھو کیوں زیست کرو ہو مردے سے افسردہ تم
ہجر میں اس کے ہم لوگوں نے برسوں تک مارا ہے دل
میرؔ پریشاں دل کے غم میں کیا کیا خاطرداری کی
خاک میں ملتے کیوں نہ پھریں اب خون ہو بہ بھی گیا ہے دل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *