مستجمع جمیع صفات و کمال کا
ادراک کو ہے ذات مقدس میں دخل کیا
اودھر نہیں گذار گمان و خیال کا
حیرت سے عارفوں کو نہیں راہ معرفت
حال اور کچھ ہے یاں انھوں کے حال و قال کا
ہے قسمت زمین و فلک سے غرض نمود
جلوہ وگرنہ سب میں ہے اس کے جمال کا
مرنے کا بھی خیال رہے میرؔ اگر تجھے
ہے اشتیاق جان جہاں کے وصال کا