خون ہو بہ سب آپھی گیا عشق حسن و جمال کیا
آنکھیں کفک سے اس کی لگا کر خاک برابر ہم بھی ہوئے
مہندی کے رنگ ان پاؤں نے تو بہتوں کو پامال کیا
یوں نکلے ہے فلک ایدھر سے ناز کناں جو جاتے تو
خاک سے سبزہ میری اگا کر ان نے مجھ کو نہال کیا
آگے جواب سے ان لوگوں کے بارے معافی اپنی ہوئی
ہم بھی فقیر ہوئے تھے لیکن ہم نے ترک سوال کیا
حال نہیں ہے عشق سے مجھ میں کس سے میرؔ اب حال کہوں
آپھی چاہ کر اس ظالم کو یہ اپنا میں حال کیا