اب جس جگہ کہ داغ ہے یاں آگے درد تھا
اک گرد راہ تھا پئے محمل تمام راہ
کس کا غبار تھا کہ یہ دنبالہ گرد تھا
دل کی شکستگی نے ڈرائے رکھا ہمیں
واں چیں جبیں پر آئی کہ یاں رنگ زرد تھا
مانند حرف صفحۂ ہستی سے اٹھ گیا
دل بھی مرا جریدۂ عالم میں فرد تھا
تھا پشتہ ریگ بادیہ اک وقت کارواں
یہ گردباد کوئی بیاباں نورد تھا
گذری مدام اس کی جوانان مست میں
پیر مغاں بھی طرفہ کوئی پیر مرد تھا
عاشق ہیں ہم تو میرؔ کے بھی ضبط عشق کے
دل جل گیا تھا اور نفس لب پہ سرد تھا