دل کو لکھوں ہوں آہ وہ کیا مدعا لکھوں

دل کو لکھوں ہوں آہ وہ کیا مدعا لکھوں
دیوانے کو جو خط لکھوں بتلاؤ کیا لکھوں
کیا کیا لقب ہیں شوق کے عالم میں یار کے
کعبہ لکھوں کہ قبلہ اسے یا خدا لکھوں
حیراں ہو میرے حال میں کہنے لگا طبیب
اس دردمند عشق کی میں کیا دوا لکھوں
وحشت زدوں کو نامہ لکھوں ہوں نہ کس طرح
مجنوں کو اس کے حاشیے پر میں دعا لکھوں
کچھ روبرو ہوئے پہ جو سلجھے تو سلجھے میرؔ
جی کے الجھنے کا اسے کیا ماجرا لکھوں
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *