چہرے سے خونناب ملوں گا پھولوں سے گل کھاؤں گا
عہد کیے جاؤں ہوں اب کے آخر مجھ کو غیرت ہے
تو بھی منانے آوے گا تو ساتھ نہ تیرے جاؤں گا
گرچہ نصیحت سب ضائع ہے لیکن خاطر ناصح کی
دل دیوانہ کیا سمجھے گا اور بھی میں سمجھاؤں گا
جھک کے سلام کسو کو کرنا سجدہ ہی ہو جاتا ہے
سر جاوے گو اس میں میرا سر نہ فرو میں لاؤں گا
سر ہی سے سر واہ یہ سب ہے ہجر کی اس کے کلفت میں
سر کو کاٹ کے ہاتھ پہ رکھے آپھی ملنے جاؤں گا
خاک ملا منھ خون آنکھوں میں چاک گریباں تا دامن
صورت حال اب اپنی اس کے خاطرخواہ بناؤں گا
دل کے تئیں اس راہ میں کھو افسوس کناں اب پھرتا ہوں
یعنی رفیق شفیق پھر ایسے میرؔ کہاں میں پاؤں گا