جی کو مہماں سنتے تھے مہمان سا آیا گیا
عشق سے ہو حال جی میں کچھ تو کہیے دیکھیو
ایک دن باتیں ہی کرتے کرتے سنّایا گیا
جستجو میں یہ تعب کھینچے کہ آخر ہو گئے
ہم تو کھوئے بھی گئے لیکن نہ تو پایا گیا
اک نگہ کرنے میں غارت کر دیا اے وائے ہم
دل جو ساری عمر کا اپنا تھا سرمایہ گیا
کیا تعجب ہے جو کوئی دل زدہ ناگہ مرے
اضطراب عشق میں جی تن سے گھبرایا گیا
ماہ کہتے تو کہا اس روئے خوش کا ہے حریف
شہر میں پھر ہم سے اپنا منھ نہ دکھلایا گیا
جیسے پرچھائیں دکھائی دے کے ہو جاتی ہے محو
میرؔ بھی اس کام جاں کا ووہیں تھا سایہ گیا