رک کر پھوٹ بہیں جو آنکھیں رود کی سی دو دھاریں ہیں
حرف شناس نہ تھے جب تم تو بے پرسش تھا بوسۂ لب
ایک اک بات کی مشتاقوں سے سو سو اب تکراریں ہیں
عشق کے دیوانے کی سلاسل ہلتی ہے تو ڈریں ہیں ہم
بگڑے پیل مست کی سی زنجیروں کی جھنکاریں ہیں
وے بھوویں جیدھر ہوں خمیدہ اودھر کا ہے خدا حافظ
یعنی جوہر دار جھکی خوں ریز کی دو تلواریں ہیں
وے وے جن لوگوں کو پھرتے آنکھوں ہم نے دیکھا تھا
حد نظر تک آج انھوں کی گرد شہر مزاریں ہیں
پیچ و تاب میں بل کھا کھا کر کوئی مرے یاں ان کو کیا
واں وے لیے مشاطہ کو یکسو بال ہی اپنے سنواریں ہیں
بڑے بڑے تھے گھر جن کے یاں آثار ان کے ہیں یہ اب
میرؔ شکستہ دروازے ہیں گری پڑی دیواریں ہیں