دل کی لاگ بری ہوتی ہے رہ نہ سکے ٹک جائے بھی

دل کی لاگ بری ہوتی ہے رہ نہ سکے ٹک جائے بھی
آئے بیٹھے اٹھ بھی گئے بیتاب ہوئے پھر آئے بھی
آنکھ نہ ٹک میلی ہوئی اپنی مطلق دل بے جا نہ ہوا
دل کی مصیبت کیسی کیسی کیا کیا رنج اٹھائے بھی
ٹھنڈے ہوتے نہ دیکھے ہرگز ویسے ہی جلتے رہتے ہیں
تلوے حنائی اس کے ہم نے آنکھوں سے سہلائے بھی
رنگ نہیں ہے منھ پہ کسی کے باد خزاں سے گلستاں میں
برگ و بار گرے بکھرے ہیں گل غنچے مرجھائے بھی
نفع کبھو دیکھا نہیں ہم نے ایسے خرچ اٹھانے پر
دل کے گداز سے لوہو روئے داغ جگر پہ جلائے بھی
عشق میں اس کے جان مری مشتاق پھرے گی بھٹکی ہوئی
شوق اگر ہے ایسا ہی تو چین کہاں مر جائے بھی
تاجر ترک فقیر ہوئے اب شاعر عالم کامل ہیں
پیش گئی کچھ میرؔ نہ اپنی سوانگ بہت سے لائے بھی
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *