سن گلہ بلبل سے گل کا اور بھی جی رک گیا
عشق کی سوزش نے دل میں کچھ نہ چھوڑا کیا کہیں
لگ اٹھی یہ آگ ناگاہی کہ گھر سب پھک گیا
ہم نہ کہتے تھے کہ غافل خاک ہو پیش از فنا
دیکھ اب پیری میں قد تیرا کدھر کو جھک گیا
خدمت معقول ہی سب مغبچے کرتے رہے
شیخ آیا میکدے کی اور جب تب ٹھک گیا
میرؔ اس قاضی کے لونڈے کے لیے آخر موا
سب کو قضیہ اس کے جینے کا تھا بارے چک گیا