رنج و حرماں کی یہ بدایت ہے
منھ ادھر کر کبھو نہ وہ سویا
کیا دعا شب کی بے سرایت ہے
اب وہ مہ اور ایک مہ سے ملا
چند در چند یہ حکایت ہے
ہر طرف بحث تجھ سے ہے اے عشق
شکر تیرا تری شکایت ہے
ایسے رنج و عنا میں اودھر سے
پرسش حال بھی عنایت ہے
دہر کا ہو گلہ کہ شکوۂ چرخ
اس ستمگر ہی سے کنایت ہے
مت مراعات غیر رکھ منظور
میرے حق میں یہی رعایت ہے
عاشق اب بڑھ گئے ہمیں چھانٹو
اس میں سرکار کی کفایت ہے
کب ملے میرؔ ملک داروں سے
وہ گدائے شہ ولایت ہے