بد وضع یاں کے لڑکے کیا خوش معاملے ہیں
گھبرانے لگتیاں ہیں رک رک کے تن میں جانیں
کرتے ہیں جو وفائیں ان ہی کے حوصلے ہیں
کیا قدر تھی سخن کی جب یاں بھی صحبتیں تھیں
ہر بات جائزہ ہے ہر بیت پر صلے ہیں
جب کچھ تھی جہت مجھ سے تب کس سے ملتے تھے تم
اطراف کے یہ بے تہ اب تم سے آملے ہیں
تھا واجب الترحم مظلوم عشق تھا میں
اس کشتۂ ستم کو تم سے بہت گلے ہیں
سوز دروں سے کیونکر میں آگ میں نہ لوٹوں
جوں شیشۂ حبابی سب دل پر آبلے ہیں
میں جی سنبھالتا ہوں وہ ہنس کے ٹالتا ہے
یاں مشکلیں ہیں ایسی واں یہ مساہلے ہیں
اندیشہ زاد رہ کا رکھیے تو ہے مناسب
چلنے کو یاں سے اکثر تیار قافلے ہیں
پانچوں حواس گم ہیں ہر اک کے اس سمیں میں
کیا میرؔ جی ہی تنہا ان روزوں دہ دلے ہیں