قدر بہت ہی کم ہے دل کی پر دل میں ہے چاہ بہت
راہ کی بات سنی بھی ہے تو جانا حرف غریب اس کو
خوبی پر اپنی حسن پر اپنے پھرتا ہے گمراہ بہت
حیرانی ہے کیونکر ہووے نسبت اپنی اس سے درست
بندہ تو ہے عاجز عاجز اس کو غرور اللہ بہت
شوق کا خط طومار ہوا تھا ہاتھ میں لے کر کھولا جب
کہنے لگا کیا کرنے لکھے ہے اب تو نامہ سیاہ بہت
سب کہتے ہیں روئے توجہ ایدھر کرنے کہتا تھا
شاید یوں بھی ظاہر ہووے ہے تو سہی افواہ بہت
اب تو پیر ہی حضرت ہو کر ایک کنارے بیٹھے ہیں
جب تھی جوانی تب تو ہم بھی جاتے تھے درگاہ بہت
کیا گذری ہے جی پہ تمھارے ہم سے تو کچھ میرؔ کہو
آنے لگی ہے درد و الم سے صاحب لب پر آہ بہت