دن فصل گل کے اب کے بھی جاتے ہیں باؤ سے

دن فصل گل کے اب کے بھی جاتے ہیں باؤ سے
دل داغ ہو رہا ہے چمن کے سبھاؤ سے
پہنچی نہ باس گل کی ہمارے مشام میں
یاں کھل رہے ہیں دیدۂ خوں بار گھاؤ سے
نامہ مرے عمل کا بھی اے کاش ساتھ جائے
جب آسمان لپٹیں گے کاغذ کے تاؤ سے
وارفتگان عشق بھی کیا طرفہ لوگ ہیں
دل کے گئے پہ دیتے ہیں جی کیسے چاؤ سے
کہتے تو کہیے بات کوئی دل کی میرؔ سے
پر جی بہت ڈرے ہے انھوں کے چواؤ سے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *