دن آج کا بھی سانجھ ہوا انتظار میں
داغوں سے بھر گیا ہے مرا سینۂ فگار
گل پھول زور زور کھلے اس بہار میں
کیا اعتبار طائر دل کی تڑپ کا اب
مذبوحی سی ہے کچھ حرکت اس شکار میں
بوسہ لبوں کا مانگتے ہی تم بگڑ گئے
بہتیری باتیں ہوتی ہیں اخلاص پیار میں
دل پھر کے ہم سے خانۂ زنجیر کے قریب
ٹک پہنچتا ہی ہے شکن زلف یار میں
اس بحرحسن پاس نہ خنجر تھا کل نہ تیغ
میں جان دی ہے حسرت بوس و کنار میں
چلتا ہے ٹک تو دیکھ کے چل پاؤں ہر نفس
آنکھیں ہی بچھ گئی ہیں ترے رہگذار میں
کس کس ادا سے ریختے میں نے کہے ولے
سمجھا نہ کوئی میری زبان اس دیار میں
تڑپے ہے متصل وہ کہاں ایسے روز و شب
ہے فرق میرؔ برق و دل بے قرار میں