وحشت کرنا شیوہ ہے کیا اچھی آنکھوں والوں کا
صورت گر کی پریشانی نے طول نہایت کھینچا ہے
ہم نے کیوں بستار کیا تھا اس کے لمبے بالوں کا
بہت کیا تو پتھر میں سوراخ کیے ہیں در فشوں نے
چھید جگر میں کر دینا یہ کام ہے محزوں نالوں کا
سرو لب جو لالہ و گل نسرین و سمن ہیں شگوفہ ہے
دیکھو جدھر اک باغ لگا ہے اپنے رنگیں خیالوں کا
غنچہ ہوا ہے خار بیاباں بعد زیارت کرنے کے
پانی تبرک کرتے ہیں سب پاؤں کے میرے چھالوں کا
پہلے تدارک کچھ ہوتا تو نفع بھی ہوتا سو تو میرؔ
کام ہے آخر عشق میں اس کے بیماروں بدحالوں کا