دیر کچھ کھنچتی تو کہتے بھی ملاقات کی بات

دیر کچھ کھنچتی تو کہتے بھی ملاقات کی بات
ملنا اپنا جو ہوا اس سے سو وہ بات کی بات
گفتگو شاہد و مے سے ہے نہ غیبت نہ گلہ
خانقہ کی سی نہیں بات خرابات کی بات
سن کے آواز سگ یار ہوئے ہم خاموش
بولتے واں ہیں جہاں ہووے مساوات کی بات
منھ ادھر اور سخن زیر لبی غیر کے ساتھ
اس فریبندہ کی ناگفتنی ہے گھات کی بات
اس لیے شیخ ہے چپکا کہ پڑے شہر میں شور
ہم سمجھتے ہیں یہ شیادی و طامات کی بات
یہ کس آشفتہ کی جمعیت دل تھی منظور
بال بکھرے ترے منھ پر کہیں ہیں رات کی بات
گفتگو وصفوں سے اس ماہ کے کریے اے میرؔ
کاہش افزا ہے کروں اس کی اگر ذات کی بات
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *