اے انتظار تجھ کو کسی کا ہو انتظار
ساقی تو ایک بار تو توبہ مری تڑا
توبہ کروں جو پھر تو ہے توبہ ہزار بار
کیا زمزمہ کروں ہوں خوشی تجھ سے ہم صفیر
آیا جو میں چمن میں تو جاتی رہی بہار
کس ڈھب سے راہ عشق چلوں ہے یہ ڈر مجھے
پھوٹیں کہیں نہ آبلے ٹوٹیں کہیں نہ خار
کوچے کی اس کے راہ نہ بتلائی بعد مرگ
دل میں صبا رکھے تھی مری خاک سے غبار
اے پائے خم کہ گردش ساغر ہو دستگیر
مرہون درد سر ہو کہاں تک مرا خمار
وسعت جہاں کی چھوڑ جو آرام چاہے میرؔ
آسودگی رکھے ہے بہت گوشۂ مزار